اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
دشمن کے بھی دشمن پر ايسا نہ ہوا ہو گا
ٹک گور غريباں کی کر سير کہ دنيا ميں
ان ظلم رسيدوں پر کيا کيا نہ ہوا ہو گا
ہے قاعدۂ کلی یہ کوئے محبت میں
اس کہنہ خرابے ميں آبادی نہ کر منعم
اک شہر نہيں ياں جو صحرا نہ ہوا ہو گا
آنکھوں سے تِری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنيا ميں برپا نہ ہوا ہو گا
جز مرتبۂ کُل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا
صد نشترِ مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میرؔ ایسا سودا نہ ہوا ہو گا
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment