Wednesday 30 December 2015

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
دشمن کے بھی دشمن پر ايسا نہ ہوا ہو گا
ٹک گور غريباں کی کر سير کہ دنيا ميں
ان ظلم رسيدوں پر کيا کيا نہ ہوا ہو گا
ہے قاعدۂ کلی یہ کوئے محبت میں
دل گم جو ہوا ہو گا پیدا نہ ہوا ہو گا
اس کہنہ خرابے ميں آبادی نہ کر منعم
اک شہر نہيں ياں جو صحرا نہ ہوا ہو گا
آنکھوں سے تِری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنيا ميں برپا نہ ہوا ہو گا​
جز مرتبۂ کُل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا
صد نشترِ مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میرؔ ایسا سودا نہ ہوا ہو گا

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment