جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا
شیشے کے خالی ہوتے ہی پیمانہ بھر گیا
نے قاصدِ خیال، نہ پیکِ نظر گیا
ان تک میں اپنی آپ ہی لے کر خبر گیا
روح و روان و جسم کی صورت میں کیا کہوں
طوفانِ نوحؑ اس میں ہو یا شورِ حشر ہو
ہونا جو کچھ ہے ہو گا، جو گزرا گزر گیا
سمجھا ہے حق کو اپنے ہی جانب ہر ایک شخص
یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا
شوریدگی سے میری یہاں تک وہ تنگ تھے
روٹھا جو میں تو خیر منائی کہ شر گیا
کاغذ سیاہ کرتے ہو کس کے لیے نسیمؔ
آیا جوابِ خط تمہیں اور نامہ بر گیا
دیا شنکر نسیم
No comments:
Post a Comment