دھویا گیا تمام ہمارا غبارِ دل
گریے نے دل سے خوب نکالا بخارِ دل
اتنا نہیں کوئی کہ خبر اُس کی آ کے لے
کب سے بجھا پڑا ہے چراغِ مزارِ دل
صبر و قرار کب کا ہمارا وہ لے گیا
کہتے ہیں داغِ عشق کسے ہم کو کیا خبر
یک قطرہ خونِ گرم تو ہے ہم کنارِ دل
مجبور ہوں میں کیوں کے کروں ضبطِ گریہ آہ
نے اختیارِ چشم ہے، نے اختیارِ دل
آتا ہے جی میں پہلو میں دل کو چھپا رکھوں
یاں تک کہ وہ کِیا ہی کرے انتظارِ دل
رازِ دل اپنا کس سے کہوں ہائے مصحفیؔ
ملتا نہیں کوئی مجھے تو رازدارِ دل
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment