تجھ سے گر وہ دِلا نہیں ملتا
زہر بھی تجھ کو کیا نہیں ملتا
جس کو وہ زلف مار ڈالے ہے
سرِ مو خون بہا نہیں ملتا
اور سب کچھ ملے ہے دنیا میں
دلِ دیوانہ رات سے گم ہے
کہیں اس کا پتا نہیں ملتا
شیخ کلبے سے اٹھ، نکل باہر
گھر میں بیٹھے خدا نہیں ملتا
درد و غم کو بھی ہے نصیبہ شرط
یہ بھی قسمت سوا نہیں ملتا
ق
ایک نے پوچھا یہ مصحفی سے بھلا
کیوں تُو اے بے وفا نہیں ملتا
ہنس کے بولا کہ او میاں اس سے
کیا کروں دل مِرا نہیں ملتا
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment