وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
گیت
یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا، بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
سدرشن فاکر
No comments:
Post a Comment