شب وہ ان آنکھوں کو شغلِ اشکباری دے گئے
لے گئے خواب ان کا اور اختر شماری دے گئے
چلتے چلتے اس ادا سے وعدہ آنے کا کِیا
دے کے ہاتھ اس دل پہ اور اک زخم کاری دے گئے
خواب و خور صبر و سکوں یکبار سب جاتا رہا
یہ خبر تُو نے سنی ہو گی کہ اس کوچے میں رات
داد رونے کی ہم اے ابرِ بہاری دے گئے
گر کہیں آیا نظر ان کو کوئی مٹی کا ڈھیر
گالیاں اس کو سمجھ تُربت ہماری دے گئے
آپ تو جاتے رہے باتیں بنا، اور مجھ کو آہ
بے قراری، بے خودی، بے اختیاری دے گئے
گر ہُوا عزمِ سفر ان کا سحر مصحفیؔ
وقتِ شام آ کر مجھے اپنی کٹاری دے گئے
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment