اب تک نہاں تھے جتنے اسرار کھل رہے ہیں
بیٹھے تھے جو فلک پر سرکار کھل رہے ہیں
ہے عام آدمی کے اب ہاتھ میں حقیقت
جتنے بھی دُور تھے سب دربار کھل رہے ہیں
ہم دیکھتے ہیں اب تو سچ کی برہنہ صورت
ترسیل کو ملے ہیں اتنے نئے وسیلے
مدت سے جو چھپے تھے فنکار کھل رہے ہیں
انسان کیا ہے، کیوں ہے، سب جاننے لگے ہیں
جو بھی ہیں، جیسے بھی ہیں، کردار کھل رہے ہیں
کچھ انتہا نہیں ہے خواجہؔ جی کی خوشی کی
اہلِ جہاں پہ ان کے افکار کھل رہے ہیں
خواجہ اشرف
کے اشرف
No comments:
Post a Comment