Sunday 27 December 2015

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہُوا کیے
دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا
میں اور جاؤں در سے تِرے بِن صدا کیے 
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہنِ مے
مدت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے
بے صرفہ ہی گزرتی ہے، ہو گرچہ عمرِ خضرؑ
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تُو نے وہ گنج‌ ہائے گراں مایہ کیا کیے
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو 
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے
صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خُو
دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے
ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے
غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے

مرزا غالب

No comments:

Post a Comment