فلمی گیت
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی بانہوں میں پا کر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہو گی
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
وہی خواب دن کے منڈیروں پہ آ کے
اسے من ہی من میں لبھاتے تو ہوں گے
کئی ساز سینے کی خاموشیوں میں
میری یاد سے جھنجھناتے تو ہوں گے
وہ بےساختہ دھیمے دھیمے سروں میں
میری دھن میں کچھ گنگناتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
چلو خط لکھیں، جی میں آتا تو ہو گا
مگر انگلیاں کپکپاتی تو ہوں گی
قلم ہاتھ سے چھوٹ جاتا تو ہو گا
امنگیں قلم پھر اٹھاتی تو ہوں گی
میرا نام اپنی کتابوں پہ لکھ کر
وہ دانتوں میں انگلی دباتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
زباں سے کبھی اف نکلتی تو ہو گی
بدن دھیمے دھیمے سلگتا تو ہو گا
کہیں کے کہیں پاؤں پڑتے تو ہوں گے
زمیں پر دوپٹہ لٹکتا تو ہو گا
کبھی صبح کو شام کہتی تو ہو گی
کبھی رات کو دن بتاتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
ہر اک چیز ہاتھوں سے گرتی تو ہو گی
طبیعت پہ ہر کام کھلتا تو ہو گا
پلیٹیں کبھی ٹوٹ جاتی تو ہو گی
کبھی دودھ چولہے پہ جلتا تو ہو گا
غرض اپنی معصوم نادانیوں پر
وہ نازک بدن جھینپ جاتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
کمال امروہی
No comments:
Post a Comment