Thursday 24 December 2015

کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی

فلمی گیت

کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی 

مجھے اپنے خوابوں کی بانہوں میں پا کر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہو گی
اسی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی

وہی خواب دن کے منڈیروں پہ آ کے
اسے من ہی من میں لبھاتے تو ہوں گے
کئی ساز سینے کی خاموشیوں میں
میری یاد سے جھنجھناتے تو ہوں گے
وہ بےساختہ دھیمے دھیمے سروں میں
میری دھن میں کچھ گنگناتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی

چلو خط لکھیں، جی میں‌ آتا تو ہو گا
مگر انگلیاں کپکپاتی تو ہوں گی
قلم ہاتھ سے چھوٹ جاتا تو ہو گا
امنگیں قلم پھر اٹھاتی تو ہوں گی
میرا نام اپنی کتابوں پہ لکھ کر
وہ دانتوں میں انگلی دباتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی

زباں سے کبھی اف نکلتی تو ہو گی
بدن دھیمے دھیمے سلگتا تو ہو گا
کہیں کے کہیں پاؤں پڑتے تو ہوں گے
زمیں پر دوپٹہ لٹکتا تو ہو گا
کبھی صبح کو شام کہتی تو ہو گی
کبھی رات کو دن بتاتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی

ہر اک چیز ہاتھوں سے گرتی تو ہو گی
طبیعت پہ ہر کام کھلتا تو ہو گا
پلیٹیں کبھی ٹوٹ جاتی تو ہو گی
کبھی دودھ چولہے پہ جلتا تو ہو گا
غرض اپنی معصوم نادانیوں پر 
وہ نازک بدن جھینپ جاتی تو ہو گی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی

کمال امروہی

No comments:

Post a Comment