الجھے گا جتنا اور الجھتا ہی جائے گا
تجھ سے کہاں تلک کوئی پیچھا چھڑائے گا
جتنی پناہیں ڈھونڈنا چاہے وہ ڈھونڈ لے
لوٹے گا جب بھی چھاؤں میں زلفوں کی آئے گا
کتنے ہی اہتمام سے رہ لیں مگر مزا
بچوں کے ساتھ رات گزرنے کی لذتیں
ہوٹل کا بند کمرہ کہاں تک جٹائے گا
شیشے کا جسم ، خاک کا سر، گوشت کی زباں
کب تک یہ ڈھونگ اور ہمیں خوں رلائے گا
اک روز ٹوٹ جائے گا سارا تِرا طلسم
ہونٹوں کو جان بوجھ کے کب تک رچائے گا
آشفتہ چنگیزی
No comments:
Post a Comment