Thursday, 24 December 2015

الجھے گا جتنا اور الجھتا ہی جائے گا

الجھے گا جتنا اور الجھتا ہی جائے گا
تجھ سے کہاں تلک کوئی پیچھا چھڑائے گا
جتنی پناہیں ڈھونڈنا چاہے وہ ڈھونڈ لے
لوٹے گا جب بھی چھاؤں میں زلفوں کی آئے گا
کتنے ہی اہتمام سے رہ لیں مگر مزا
چولہے کے پاس بیٹھ کے کھانے میں آئے گا
بچوں کے ساتھ رات گزرنے کی لذتیں
ہوٹل کا بند کمرہ کہاں تک جٹائے گا
شیشے کا جسم ، خاک کا سر، گوشت کی زباں
کب تک یہ ڈھونگ اور ہمیں خوں رلائے گا
اک روز ٹوٹ جائے گا سارا تِرا طلسم
ہونٹوں کو جان بوجھ کے کب تک رچائے گا

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment