اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں
ٹک صفحۂ زمیں کے خاکے پہ غور کر تو
صانع نے اس پہ کیا کیا شکلیں اتاریاں ہیں
دل کی طپش کا اپنے عالم ہی ٹک جدا ہے
ان محملوں پہ آوے مجنوں کو کیوں نہ حسرت
جن محملوں کے اندر دو دو سواریاں ہیں
جاگا ہے رات پیارے تو کس کے گھر جو تیرے
پلکیں اونیندیاں ہیں، آنکھیں خماریاں ہیں
نومید ہیں بظاہر گر وصل سے ہم اس کے
دل میں تو سو طرح کی امیدواریاں ہیں
کیا پوچھتے ہو ہمدم احوال مصحفیؔ کا
راتیں اندھیریاں اور اختر شماریاں ہیں
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment