Thursday 24 December 2015

اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں

اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں
ٹک صفحۂ زمیں کے خاکے پہ غور کر تو
صانع نے اس پہ کیا کیا شکلیں اتاریاں ہیں
دل کی طپش کا اپنے عالم ہی ٹک جدا ہے
سیماب و برق میں کب یہ بے قراریاں ہیں
ان محملوں پہ آوے مجنوں کو کیوں نہ حسرت
جن محملوں کے اندر دو دو سواریاں ہیں
جاگا ہے رات پیارے تو کس کے گھر جو تیرے
پلکیں اونیندیاں ہیں، آنکھیں خماریاں ہیں
نومید ہیں بظاہر گر وصل سے ہم اس کے
دل میں تو سو طرح کی امیدواریاں ہیں
کیا پوچھتے ہو ہمدم احوال مصحفیؔ کا
راتیں اندھیریاں اور اختر شماریاں ہیں

غلام ہمدانی مصحفی

No comments:

Post a Comment