چاند تارے بھی زیرِ قدم آ گئے
یہ کہاں تیری چاہت میں ہم آ گئے
جب کبھی یاد ان کے ستم آ گئے
وہ تصور میں با چشمِ نم آ گئے
دفعتاً زلف رخ پر جو لہرا گئی
عزم ترکِ وفا کر چکے تھے، مگر
آج پھر دل کی باتوں میں ہم آ گئے
ہوش جانے کا ہم کو ذرا غم نہیں
تیری محفل میں تو کم سے کم آ گئے
مۓ کشی کا مزا خاک میں مل گیا
لیجیے، واعظِ محترم آ گئے
سن کے روداد مجھ سے شبِ ہجر کی
اور بھی ان کی زلفوں میں خم آ گئے
اس کے دامن کی قسمت نہ پوچھ اے صباؔ
جس کے دامن میں دنیا کے غم آ گئے
صبا افغانی
No comments:
Post a Comment