آئینے سے رہا کرئے کوئی
مجھ کو مجھ سے جدا کرئے کوئی
بے بسی جان لینے لگتی ہے
جو نہ روئے تو کیا کرئے کوئی
شدتِ غم کو جاننے کے لئے
اب یہ دل ہے کہ میں رہوں خوش اور
میرے غم میں رہا کرئے کوئی
میں بھی ٹھہروں کسی کے ہونٹوں پر
میری خاطر دعا کرئے کوئی
روکتی ہے انا یہ کہنے سے
"میرے دکھ کی دوا کرئے کوئی"
بے وفائی کے سرخ موسم میں
کیا کسی سے وفا کرئے کوئی
عاطف سعید
No comments:
Post a Comment