Tuesday, 6 January 2015

ہوا اڑا کے مجھے شہرِ بے نشاں لے چل

ہوا! اُڑا کے مجھے شہرِ بے نشاں لے چل
جہاں مقیم ہیں سب میرے رفتگاں، لے چل
یہاں پہ ختم ہوئی سرحدِ یقیں، آگے
اب اِس مقام سے تُو طائرِ گماں! لے چل
ٹھہر تو اور برس دو برس گزارتے ہیں
نہیں پسند اگر عمرِ مہرباں! لے چل
خلا میں پھینک نہ میرے بجھے ستارے کو
سمیٹ راکھ، ابد پار کہکشاں لے چل
یہیں پہ فردِ عمل کھول، پڑھ سنا تفصیل
زیاں زیاں ہی رہے گا، کسی جہاں لے چل
میں معترض تو نہیں تیری ہم رکابی سے
بنا سبیلِ اجل، ساتھ خاکداں لے چل
جہاں سے مجھ کو اُتارا گیا زمینوں پر
کبھی تو گردشِ افلاک! اُس مکاں لے چل
جو سنگِ میل تھے پہچان کے، ہوئے معدوم
تری رضا جہاں اب راہِ بے نشاں! لے چل

اعجاز گل

No comments:

Post a Comment