Tuesday, 6 January 2015

راکھ اڑی خیمہ گاہوں کی خون میں لتھڑے سر آئے

قافلہ اترا صحرا میں اور پیش وہی منظر آئے 
راکھ اڑی خیمہ گاہوں کی خون میں لتھڑے سر آئے
گلیوں میں گھمسان کا رن ہے معرکہ دست بدست ہے یاں
جسے بھی خود پر ناز بہت ہو آنگن سے باہر آئے
اک آسیب سا لہراتا ہے بستی کی شہ راہوں پر
شام ڈھلے جو گھر سے نکلے لوٹ کے پھر نہیں گھر آئے
دنوں مہینوں آنکھیں روئیں نئی رُتوں کی خواہش میں
رُت بدلی تو سُوکھے پتے دہلیزوں میں در آئے
ایک دِیا روشن رکھنا دیوار پہ چاند ستاروں سا
ابر اٹھے بارش برسے یا ہواؤں کا لشکر آئے
ورنہ کس نے پار کیا تھا رستہ بھری دوپہروں کا
کچھ ہم سے دیوانے تھے جو طے یہ مسافت کر آئے

اعجاز گل

No comments:

Post a Comment