Sunday, 4 January 2015

خلاف جور و جفا حرف حق پہ اڑتے ہوئے

خلافِ جور و جفا حرفِ حق پہ اَڑتے ہوئے

صلیب دیکھ چکا تھا میں اپنی گڑتے ہوئے

بچھا کے پلکیں چنے تھے مری سماعت نے

کسی کے ہونٹوں سے باتوں کے پھول جھڑتے ہوئے

میں اپنی چشمِ تصور سے دیکھ سکتا تھا

نظر سے جسم پہ اس کے نشان پڑتے ہوئے

کھلی جو آنکھ تو جنگل کی شام تھی سر پر

میں آ گیا تھا کہاں تتلیاں پکڑتے ہوئے

وہاں یہ حکم تھا مجھ کو کہ آہ تک نہ بھروں

جہاں سے لوگ گئے ایڑیاں رگڑتے ہوئے

یہ ان کی خاک ہے جس پر ہیں نقشِ پا تیرے

قدم زمیں پہ نہ رکھتے تھے جو اکڑتے ہوئے

تو آج اپنا تماشا ہے سامنے راحتؔ

کسی کو دیکھا نہیں تھا اگر اجڑتے ہوئے


راحت سرحدی 

No comments:

Post a Comment