کیا کچھ نہیں تھا بس میں مگر دل نہیں کیا
کھونے کے خوف سے اسے حاصل نہیں کیا
خود پر حرام سمجھا ثمر کے حصول کو
جب تک شجر کو چھاؤں کے قابل نہیں کیا
محسوس کر لیا تھا بھنور کی تھکان کو
یونہی تو خود کو رقص پہ مائل نہیں کیا
چھو کر وہ خال و خد گئے کوزہ گری کو ہم
تاثیرِ لمسِ یار کو زائل نہیں کیا
جاگے ہوؤں سے بڑھ کے ہمیں باخبر سمجھ
ہم کو ہماری نیند نے غافل نہیں کیا
کھونے کے خوف سے اسے حاصل نہیں کیا
خود پر حرام سمجھا ثمر کے حصول کو
جب تک شجر کو چھاؤں کے قابل نہیں کیا
محسوس کر لیا تھا بھنور کی تھکان کو
یونہی تو خود کو رقص پہ مائل نہیں کیا
چھو کر وہ خال و خد گئے کوزہ گری کو ہم
تاثیرِ لمسِ یار کو زائل نہیں کیا
جاگے ہوؤں سے بڑھ کے ہمیں باخبر سمجھ
ہم کو ہماری نیند نے غافل نہیں کیا
اظہر فراغ
No comments:
Post a Comment