Sunday 4 January 2015

پل بھر کا بہشت

پل بھر کا بہشت 

ایک وہ پَل جو شہر کی خُفیہ مُٹھی میں
جگنو بن کر
دھڑک رہا ہے
اس کی خاطر
ہم عمروں کی نیندیں کاٹتے رہتے ہیں

یہ وہ پَل ہے
جس کو چُھو کر
تم دنیا کی سب سے دلکش
لذت سے لبریز اک عورت بن جاتی ہو
اور میں ایک بہادر مرد
ہم دونوں آدمؑ اور حوّا
پل بھر کے بہشت میں رہتے ہیں
اور پھر تم وہی ڈری ڈری سی
بسوں پہ چڑھنے والی، عام سی عورت
اور میں دھکے کھاتا بوجھ اُٹھاتا
عام سا مرد
دونوں شہر کے
چیختے دھاڑتے رستوں پر
پل بھر رُک کر
پھر اُس پَل کا خواب بناتے رہتے ہیں

سرمد صہبائی

No comments:

Post a Comment