Sunday, 4 January 2015

چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں

چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں
جہاں ترے پیروں کے
کنول گرا کرتے تھے
ہنسے تو دو گالوں میں
بھنور پڑا کرتے تھے
تری کمر کے بَل پر
ندی مڑا کرتی تھی
ہنسی تری سُن سُن کر
فصل پکا کرتی تھی
جہاں تری ایڑی سے
دھوپ اُڑا کرتی تھی
سنا ہے اُس چوکھٹ پر
اب شام رہا کرتی ہے
دل درد کا ٹکڑا ہے
پتھر کی ڈَلی سی ہے
اِک اَندھا کنواں ہے یا 
اِک بند گلی سی ہے
اِک چھوٹا سا لمحہ ہے
جو ختم نہیں ہوتا
میں لاکھ جلاتا ہوں 
یہ بھسم نہیں ہوتا

گلزار

No comments:

Post a Comment