چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں
جہاں ترے پیروں کے
کنول گرا کرتے تھے
ہنسے تو دو گالوں میں
بھنور پڑا کرتے تھے
تری کمر کے بَل پر
ہنسی تری سُن سُن کر
فصل پکا کرتی تھی
جہاں تری ایڑی سے
دھوپ اُڑا کرتی تھی
سنا ہے اُس چوکھٹ پر
اب شام رہا کرتی ہے
دل درد کا ٹکڑا ہے
پتھر کی ڈَلی سی ہے
اِک اَندھا کنواں ہے یا
اِک بند گلی سی ہے
اِک چھوٹا سا لمحہ ہے
جو ختم نہیں ہوتا
میں لاکھ جلاتا ہوں
یہ بھسم نہیں ہوتا
گلزار
No comments:
Post a Comment