Friday, 18 December 2015

پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا

پھر میری خبر لینے وو صیاد نہ آیا
شاید کہ مِرا حال اسے یاد نہ آیا
مدت سے مشتاق ہیں عشاق جفا کے
بے داد کہ وو ظالمِ بے داد نہ آیا
جاری کیا ہوں جوئے رواں اشکِ رواں سوں
افسوس کہ وہ غیرتِ شمشاد نہ آیا
جس غم منیں موزوں کیا ہوں آہ کا مصرع
وہ مصرعِ دلچسپ پری زاد نہ آیا
پہنچی ہے ہر اِک گوش میں فریاد ولیؔ کی
لیکن وہ صنم سننے کوں فریاد نہ آیا

ولی دکنی

No comments:

Post a Comment