پھر میری خبر لینے وو صیاد نہ آیا
شاید کہ مِرا حال اسے یاد نہ آیا
مدت سے مشتاق ہیں عشاق جفا کے
بے داد کہ وو ظالمِ بے داد نہ آیا
جاری کیا ہوں جوئے رواں اشکِ رواں سوں
جس غم منیں موزوں کیا ہوں آہ کا مصرع
وہ مصرعِ دلچسپ پری زاد نہ آیا
پہنچی ہے ہر اِک گوش میں فریاد ولیؔ کی
لیکن وہ صنم سننے کوں فریاد نہ آیا
ولی دکنی
No comments:
Post a Comment