Monday 21 December 2015

کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی

کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی 
یہ بات جب کی ہے، جب چارہ گر نہ تھا کوئی 
کسی سے رنگِ افق کی ہی بات کر لیتے 
اب اس قدر بھی یہاں معتبر نہ تھا کوئی 
بنائے جاؤں کسی اور کے بھی نقشِ قدم 
یہ کیوں کہوں کہ مِرا ہمسفر نہ تھا کوئی 
گزر گئے تِرے کوچے سے اجنبی کی طرح
کہ ہم سے سلسلۂ بام و در نہ تھا کوئی 
جسے گزار گئے ہم بڑے ہنر کے ساتھ 
وہ زندگی تھی ہماری، ہنر نہ تھا کوئی 
عجِیب ہوتے ہیں آدابِ رخصتِ محفِل
کہ اٹھ کے وہ بھی چلا، جس کا گھر نہ تھا کوئی 
ہجومِ شہر میں شامل رہا، اور اس کے بعد 
سحرؔ ادھر بھی گیا میں، جدھر نہ تھا کوئی

سحر انصاری

No comments:

Post a Comment