ہو کوئی چاند سا پیارا، یہ ضروری تو نہیں
فائدہ ایک ہو سب کا، یہ تو ہو سکتا ہے
ایک جیسا ہو خسارہ، یہ ضروری تو نہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ پردہ کوئی پردہ ہی نہ ہو
اور نظارہ ہو نظارہ، یہ ضروری تو نہیں
ہری رُتوں کی صدا پہ
ہری رُتوں کی صدا پہ ہم اپنے گھر سے نکلے
تو ساری یادوں کا سر برہنہ جلوس
میلے لباس کی طرح تن سے اترا
سفر کے پہلے قدم میں دیکھا
تو رنج و راحت کے زاویئے سب بدل گئے تھے
ابد صفت مامتا کے آنگن کی سر برہنہ پکار
کتبہ
تیرا نوحہ کون لکھے گا
سرد چٹانوں کی آنکھوں میں
تُو نے ان دیکھے میں
اپنے جیون کا دکھ دیکھ لیا تھا
اندھی چاپ کی چپ کا ہالہ
خالی کمروں کی دیواریں چاٹ رہا تھا
میری عُمر کا سرکش گھوڑا
چلتے چلتے تھک جائے گا
اپنے لہو میں سورج، ستارے اور دھرتی بہہ جائیں گے
میں صدیوں کی نیندیں اوڑھ کے سو جاؤں گا
رُت کا فسوں، بارش کا نوحہ، بین ہوا کا
دن اور رات کے سب ہنگامے
ہنستے بولتے لوگ بھی ہم کو حیراں حیراں تکتے ہیں
تُو ہی بتا اے راہ تمنا! ہم کس دیس سے آئے ہیں
تم اِک چاک گریباں دیکھ کے ہم کو رُسوا کرنے لگے
اچھا کیا جو ہم نے تم سے دل کے چاک چھپائے ہیں
چین کہاں لینے دیتی ہے درد کی میٹھی میٹھی آگ
ہم نے چھپ کر دامنِ شب میں کتنے اشک بہائے ہیں
ہم بھٹکتے ہیں خلاؤں میں صدا کی صورت
کون سنتا ہے ہمیں حرفِ دعا کی صورت
دل کے صحراؤں میں گونجی ہے دعا زمزم کی
یا نبیؐ تیری شفا برسے گھٹا کی صورت
تیرے انفاس میں چمکا ہے سماوات کا نُور
تیری صورت میں نظر آئی خدا کی صورت
فلمی گیت
آپ کو بھول جائیں ہم، اتنے تو بے وفا نہیں
آپ سے کیا گلہ کریں آپ سے کچھ گلہ نہیں
ہم تو یہ سمجھ رہے تھے یہ تم ملے پیار مل گیا
اک تیرے درد کے سوا ہم کو تو کچھ ملا نہیں
شیشۂ دل کو توڑنا اُن کا تو ایک کھیل ہے
ہم سے ہی بھول ہو گئی اُن کی کوئی خطا نہیں