Thursday, 1 January 2015

میں تیرا نقش مکمل بنا نہیں سکتا

میں تیرا نقش مکمل بنا نہیں سکتا 
خیالِ یار برابر تو آ نہیں سکتا
یہ وقت لکھتا ہے کیا کیا عبارتیں دل پر 
جو پڑھ تو سکتا ہوں لیکن مٹا نہیں سکتا 
کمالِ ضبط سے یہ بارِ ہجر سہہ لوں گا
میں دل کے غار سے پتھر ہٹا نہیں سکتا 
عجیب طرح کی لذت ہے ہِجر و ہِجرت کی 
کہ درد اٹھتا ہے پر تلملا نہیں سکتا
عجیب موڑ پہ لے آئی زندگی مجھ کو 
حقیقتوں سے میں پردہ اٹھا نہیں سکتا
میں جوڑ سکتا ہوں ٹوٹے ہوئے تعلق کو 
مگر یہ وقت دلوں کو ملا نہیں سکتا  
یہ دل دریچہ کھلا ہے رضاؔ کا برسوں سے 
مرا یقیں ہے پلٹ کر وہ آ نہیں سکتا

محمود رضا سید 

No comments:

Post a Comment