Thursday 1 January 2015

خاک میں رہتے ہوئے خاک اڑائی نہ گئی

خاک میں رہتے ہوئے خاک اڑائی نہ گئی 
ایسی وحشت تھی کہ تصویر بنائی نہ گئی
جانے کیا بول دیا حرفِ ملامت میں نے 
شہر والوں سے مری بات بھلائی نہ گئی 
چاہتا دل تھا بہت راکھ ہی کر دوں سب کچھ 
شہر اپنا تھا جسے آگ🔥 لگائی نہ گئی
ٹھہرا ٹھہرا ہے تری یاد کا پانی کب سے 
آنکھ روئی ہے مگر آنکھ سے کائی نہ گئی 
داستاں دل کی سنانے پہ تھا آمادہ رضاؔ
اس کا کردار برابر تھا سنائی نہ گئی 

محمود رضا سید 

No comments:

Post a Comment