خاک میں رہتے ہوئے خاک اڑائی نہ گئی
ایسی وحشت تھی کہ تصویر بنائی نہ گئی
جانے کیا بول دیا حرفِ ملامت میں نے
شہر والوں سے مری بات بھلائی نہ گئی
چاہتا دل تھا بہت راکھ ہی کر دوں سب کچھ
ٹھہرا ٹھہرا ہے تری یاد کا پانی کب سے
آنکھ روئی ہے مگر آنکھ سے کائی نہ گئی
داستاں دل کی سنانے پہ تھا آمادہ رضاؔ
اس کا کردار برابر تھا سنائی نہ گئی
محمود رضا سید
No comments:
Post a Comment