Saturday 3 January 2015

یہ آرزو ہے کہ لفظوں کو آئینہ کر دوں

نعتِ رسولِ مقبولؐ

یہ آرزو ہے کہ لفظوں کو آئینہ کر دوں
قدیم یاد کے مضمون کو نیا کر دوں
بنے بنائے قرینوں میں نعت کیوں لکھوں
میں کیوں نہ کوئی قرینہ نیا بنا کر دوں
میرے قصیدے کی تشبیب بھی ہو ثابت سی
کڑی کڑی سے ملا لوں تو سلسلہ کردوں
دِیے بنا کے منڈیروں پر اس کے اسم رکھوں
میں اس کے نام کا ہر حرف قمقمہ کر دوں
وہ چاندنی کا پیمبر! کہ اس کو سوچوں تو
اندھیری رات کے چہرے کو دودھیا کر دوں
وہ نامور تھا، مگر عاجزی سے ملتا تھا
میں اک جواب تو لوگوں کو سر جھکا کر دوں
وہ سرخرو تھا، پہ راتوں کو اٹھ کے روتا تھا
میں اس کے نام پہ اک شب تو رت جگا کردوں
لہو میں ڈوب کے بھی وہ دعائیں دیتا تھا
کبھی تو میں بھی عدو کے لیے دعا کر دوں
میں افتخارؔ مغل اس کا نادہندہ ہوں
ہنر کے باب میں یہ قرض بھی ادا کر دوں

افتخار مغل

No comments:

Post a Comment