Saturday 3 January 2015

بے لوث اداؤں کی ہوا کیوں نہیں آتی

بے لوث اداؤں کی ہوا کیوں نہیں آتی
جو قلب سے اٹھتی تھی صدا کیوں نہیں آتی
پیغامِ خودی حرف کی جاگیر تھا، لیکن
اشعار سے اب ویسی ندا کیوں نہیں آتی
تن پر تو سجا رکھا ہے ملبوسِ شہانہ
آنکھوں میں مگر تیری حیا کیوں نہیں آتی
ہر شاخ پہ تیزاب کی بارش ہے مسلسل
ہو زیست کا ساماں جو صبا کیوں نہیں آتی
معتوب ہوں، رنجور ہوں، محصورِ بلا ہوں
کیوں، شہر میں جینے کی ادا کیوں نہیں آتی
مظلوم کی آہوں کی رسائی ہو فلک تک
ہونٹوں پہ تِرے اب یہ دعا کیوں نہیں آتی
جو شہر پہ ظلمات کے ہالے کو مٹا دے
اک شمع لیے ایسی فضا کیوں نہیں آتی
ہم سینچتے آئے ہیں اِسے خونِ جگر سے
اِس دشت کے زروں میں وفا کیوں نہیں آتی

ذوالفقار نقوی

1 comment: