علاجِ زخمِ دل ہوتا ہے غم خواری بھی ہوتی ہے
مگر مقتل کی میرے خوں سے گلکاری بھی ہوتی ہے
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرفداری بھی ہوتی ہے
یہ ہے طرفہ تماشا کربلائے عصرِ حاضر کا
گھروں میں قاتلوں کے اب عزاداری بھی ہوتی ہے
تعلق ان سے ٹوٹا تھا نہ ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا
بہت مضبوط زنجیرِ وفاداری بھی ہوتی ہے
وہ میرا دوست ہے منظورؔ لیکن جب بھی ملتا ہے
خلوصِ دل میں شامل کچھ ریاکاری بھی ہوتی ہے
ملک زادہ منظور احمد
No comments:
Post a Comment