Tuesday, 6 January 2015

جب کہ وجہ خوف مار آستیں کا شور ہے

بات اور بے بات پر وہ آن و ایں کا شور ہے
ہر نہیں پہ ہاں کا، ہر ہاں پر نہیں کا شور ہے
کھینچتا پھرتا ہوں دشمن پر خلا میں تیر کو
جب کہ وجہِ خوف، مارِ آستیں کا شور ہے
گھومتی ہے سر پہ چرخی چرخِ نیلی فام کی
اور نیچے سانس میں اٹکا زمیں کا شور ہے
دسترس میں جن کی محمل تھا ہوا محمل نصیب
کھو گیا صحرا میں ہر صحرا نشیں کا شور ہے
کشتیاں الٹی پڑی ہیں بحرِ احمر میں کہیں
ماتمِ طفل و زناں ہے، تارکیں کا شور ہے
ہر مسافر کو غلط فہمی، کہ آگے ہے رواں
اٹھ رہا قدموں سے راہِ واپسیں کا شور ہے
گفتگو سے ہے رگ و تارِ سماعت منقطع
خامشی اب دور کی نزد و قرِیں کا شور ہے
چل رہا بے انتظامی سے ہے اپنا انتظام
لا حکومت ملک میں بس حاکمیں کا شور ہے

اعجاز گل

No comments:

Post a Comment