Tuesday 6 January 2015

فقیر ٹھہرا مقابل یہاں اکیلا میں

فقیر ٹھہرا مقابل یہاں اکیلا میں
چہار سمت ہے غولِ سگاں، اکیلا میں
گرا تو چرخ سبھی پر مگر سلیقے سے
تھا مختلف ہدفِ آسماں اکیلا میں
یہ خاک، چاک نیا مانگتی ہے، ڈھونڈتا ہوں
تجھے، اے کوزہ گرِ دو جہاں! اکیلا میں
جوان ہو گئے سب میرے آس پاس کے لوگ
کہن رسیدہ ہوا تو جواں اکیلا میں
مرے علاوہ نہیں ہے اگر کوئی موجود
سنا رہا ہوں کسے داستاں اکیلا میں
مخالفت پہ ہے ہمزاد تک کمر بستہ
بس اپنی ذات پہ ہوں مہرباں اکیلا میں

اعجاز گل

No comments:

Post a Comment