Tuesday, 6 January 2015

اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا

اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا
روشن چراغ دور کسی طاق میں رہا
مخفی بھی تھا وصال کا وہ باب مختصر
کچھ دل بھی محو ہجر کے اسباق میں رہا
صحرا کے اشتراک پہ راضی تھے سب فریق
محمل کا جو فساد تھا عشاق میں رہا
مفقود ہوگیا ہے سیاق ؤ سباق سے
جو حرف عمر سیکڑوں اوراق میں رہا
میں تھا کہ جس کے واسطے پابند عہد ہجر
وہ اور ایک ہجر کے میثاق میں رہا
اطوار اس کے دیکھ کے آتا نہیں یقیں
انساں سنا گیا ہے کہ آفاق میں رہا
خفتہ تھے ذاتی دائیں بائیں کئی مار آستیں
زہراب کا اثر مِرے تریاق میں رہا
تاریخ نے پسند کیا بھی کسی سبب
یا بس کہ شاہ وقت تھا اوراق میں رہا

اعجاز گل

No comments:

Post a Comment