اتنا طلسم یاد کے چقماق میں رہا
روشن چراغ دور کسی طاق میں رہا
مخفی بھی تھا وصال کا وہ باب مختصر
کچھ دل بھی محو ہجر کے اسباق میں رہا
صحرا کے اشتراک پہ راضی تھے سب فریق
محمل کا جو فساد تھا عشاق میں رہا
مفقود ہوگیا ہے سیاق ؤ سباق سے
جو حرف عمر سیکڑوں اوراق میں رہا
میں تھا کہ جس کے واسطے پابند عہد ہجر
وہ اور ایک ہجر کے میثاق میں رہا
اطوار اس کے دیکھ کے آتا نہیں یقیں
انساں سنا گیا ہے کہ آفاق میں رہا
خفتہ تھے ذاتی دائیں بائیں کئی مار آستیں
زہراب کا اثر مِرے تریاق میں رہا
تاریخ نے پسند کیا بھی کسی سبب
یا بس کہ شاہ وقت تھا اوراق میں رہا
اعجاز گل
روشن چراغ دور کسی طاق میں رہا
مخفی بھی تھا وصال کا وہ باب مختصر
کچھ دل بھی محو ہجر کے اسباق میں رہا
صحرا کے اشتراک پہ راضی تھے سب فریق
محمل کا جو فساد تھا عشاق میں رہا
مفقود ہوگیا ہے سیاق ؤ سباق سے
جو حرف عمر سیکڑوں اوراق میں رہا
میں تھا کہ جس کے واسطے پابند عہد ہجر
وہ اور ایک ہجر کے میثاق میں رہا
اطوار اس کے دیکھ کے آتا نہیں یقیں
انساں سنا گیا ہے کہ آفاق میں رہا
خفتہ تھے ذاتی دائیں بائیں کئی مار آستیں
زہراب کا اثر مِرے تریاق میں رہا
تاریخ نے پسند کیا بھی کسی سبب
یا بس کہ شاہ وقت تھا اوراق میں رہا
اعجاز گل
No comments:
Post a Comment