Sunday 4 January 2015

یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا

یہ کیسا عشق ہے اُردو زباں کا

یہ کیسا عشق ہے اُردو زباں کا
مزہ گُھلتا ہے لفظوں کا زباں پر، کہ جیسے پان میں مہنگا قوام گُھلتا ہے
یہ کیسا عشق ہے اُردو زباں کا
نشہ آتا ہے اُردو بولنے میں
گلوری کی طرح ہے منہ لگی سب اصطلاحیں، لطف دیتی ہیں
حلق چُھوتی ہے اُردو تو، حلق سے، جیسے، مے کا گُھونٹ اُترتا ہے
بڑی ارسٹوکریسی ہے زباں میں
فقیری میں نوابی کا مزہ دیتی ہے اُردو
اگرچہ معانی کم ہوتے ہیں اُردو میں
الفاظ کی افراط ہوتی ہے
مگر پھر بھی، بلند آواز پڑھیے تو بہت ہی معتبر لگتی ہیں باتیں
کہیں کچھ دور سے کانوں میں پڑتی ہے اگر اُردو
تو لگتا ہے کہ دن جاڑوں کے ہیں، کھڑکی کُھلی ہے، دھوپ اندر آ رہی ہے
عجب ہے یہ زباں اُردو
کبھی یونہی سفر کرتے، اگر کوئی مسافر شعر پڑھ دے میر، غالب کا
وہ چاہے اجنبی ہو، یہی لگتا ہے وہ میرے وطن کا ہے
بڑی شائستہ لہجے میں کسی سے اُردو سُن کر
کیا نہیں لگتا کہ اک تہذیب کی آواز ہے، اُردو 

گلزار

No comments:

Post a Comment