Monday 21 December 2015

ہنگامہ حیات سے جانبر نہ ہو سکا

ہنگامۂ حیات سے جانبر نہ ہو سکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا
میرا لہو بھی پی کے نہ دنیا جواں ہوئی
قیمت مِرے جنوں کی مِرا سر نہ ہو سکا
تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی
اب کے تو میرا گھر بھی مِرا گھر نہ ہوسکا
یوں جی بہل گیا ہے تِری یاد سے مگر
تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا
گزری جو شب تو بجھ گئے اپنے چراغ بھی
آئی سحر تو پھر کوئی رہبر نہ ہو سکا

خلیل الرحمان اعظمی

No comments:

Post a Comment