ہنگامۂ حیات سے جانبر نہ ہو سکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا
میرا لہو بھی پی کے نہ دنیا جواں ہوئی
قیمت مِرے جنوں کی مِرا سر نہ ہو سکا
تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی
یوں جی بہل گیا ہے تِری یاد سے مگر
تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا
گزری جو شب تو بجھ گئے اپنے چراغ بھی
آئی سحر تو پھر کوئی رہبر نہ ہو سکا
خلیل الرحمان اعظمی
No comments:
Post a Comment