تِری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مِرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے
میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروجِ فن! مِری دہلیز پر اتار مجھے
ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
کہے گا دل تو میں پتھر کے پاؤں چوموں گا
زمانہ لاکھ کرے آ کے سنگسار مجھے
وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوبِ روزگار مجھے
خلیل الرحمان اعظمی
No comments:
Post a Comment