لٹ گیا گھر تو ہے اب صبح کہیں شام کہیں
دیکھیے اب ہمیں ملتا بھی ہے آرام کہیں
کہیں ایسا نہ ہو فتنہ کوئی برپا ہو جائے
اب کبھی بھول کہ لیجے نہ مِرا نام کبھی
ہم ستم خوردہ ہیں کچھ دور ہی ہٹ کر رہیے
جب پڑا غم تو بدلتی ہی نہیں یہ دنیا
جا کے اب بیٹھ رہی گردشِ ایام کہیں
میرے احباب کے اخلاص کا پردہ رہ جائے
مجھ کو پہلے ہی ڈبو دے دلِ ناکام کہیں
کوہ و صحرا کی طرف چل تو پڑے ہیں وحشی
پھر انہیں روک نہ لیں تیرے در و بام کہیں
مے کدہ چھوڑ کے ہم رِند بہت پچھتائے
ہم پہ سجتا ہی نہیں جامۂ احرام کہیں
خلیل الرحمان اعظمی
No comments:
Post a Comment