Monday 21 December 2015

لٹ گیا گھر تو ہے اب صبح کہیں شام کہیں

لٹ گیا گھر تو ہے اب صبح کہیں شام کہیں
دیکھیے اب ہمیں ملتا بھی ہے آرام کہیں
کہیں ایسا نہ ہو فتنہ کوئی برپا ہو جائے
اب کبھی بھول کہ لیجے نہ مِرا نام کبھی
ہم ستم خوردہ ہیں کچھ دور ہی ہٹ کر رہیے
دیکھیے آپ پہ آ جائے نہ الزام کہیں
جب پڑا غم تو بدلتی ہی نہیں یہ دنیا
جا کے اب بیٹھ رہی گردشِ ایام کہیں
میرے احباب کے اخلاص کا پردہ رہ جائے
مجھ کو پہلے ہی ڈبو دے دلِ ناکام کہیں
کوہ و صحرا کی طرف چل تو پڑے ہیں وحشی
پھر انہیں روک نہ لیں تیرے در و بام کہیں
مے کدہ چھوڑ کے ہم رِند بہت پچھتائے
ہم پہ سجتا ہی نہیں جامۂ احرام کہیں

خلیل الرحمان اعظمی

No comments:

Post a Comment