شب فرقت میں یاد اس بے خبر کی بار بار آئی
بھلانا ہم نے بھی چاہا، مگر بے اختیار آئی
امیدیں تجھ سے تھیں وابستہ لاکھوں آرزو لیکن
بہت ہو کر تِری درگاہ سے بے اعتبار آئی
الہی رنگ یہ کب تک رہے گا ہجرِ جاناں میں
تِری بے اعتنائی کو یہ آخر کیا خیال آیا
جو میری پُرسشِ غم کو بچشمِ اشکبار آئی
نہ ہاتھ آیا بجز رنج و بلا کچھ عشق حسرتؔ کو
دیارِ حسن کی آب و ہوا سازگار آئی
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment