وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے
تعلقات تو اب بھی ہیں، رابطہ کم ہے
تم اس خموش طبیعت پہ طنز مت کرنا
وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے
فضول تیز ہواؤں کو دوش دیتا ہے
حریفو! خوب اڑاؤ سروں پہ خاک اپنے
مِرا چراغ بجھانے کو یہ ہوا کم ہے
بِلا سبب ہی میاں تم اداس رہتے ہو
تمہارے گھر سے تو مسجد کا فاصلہ کم ہے
میں اپنے بچوں کی خاطر ہی جان دے دیتا
مگر غریب کی جاں کا معاوضہ کم ہےِ
نواز دیوبندی
No comments:
Post a Comment