Wednesday, 23 December 2015

وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے

وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے
تعلقات تو اب بھی ہیں، رابطہ کم ہے
تم اس خموش طبیعت پہ طنز مت کرنا
وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے
فضول تیز ہواؤں کو دوش دیتا ہے
اسے چراغ جلانے کا حوصلہ کم ہے 
حریفو! خوب اڑاؤ سروں پہ خاک اپنے
مِرا چراغ بجھانے کو یہ ہوا کم ہے
بِلا سبب ہی میاں تم اداس رہتے ہو
تمہارے گھر سے تو مسجد کا فاصلہ کم ہے
میں اپنے بچوں کی خاطر ہی جان دے دیتا
مگر غریب کی جاں کا معاوضہ کم ہےِ

نواز دیوبندی

No comments:

Post a Comment