Wednesday 23 December 2015

وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک​

وہ رلا کر ہنس نہ پایا دیر تک​
جب میں رو کر مسکرایا دیر تک​
بھولنا چاہا کبھی اس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بے ساختہ میں ہنس پڑا
اس نے اس درجہ رلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گنگناتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک
کل اندھیری رات میں میری طرح
ایک جگنو جگمگایا دیر تک​

نواز دیوبندی

No comments:

Post a Comment