Monday 21 December 2015

وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں

وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں
وہ فاصلے بھی گئے، اب وہ قربتیں بھی گئیں
دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے، نہ گریز
محبتیں تو گئی تھیں، عداوتیں بھی گئیں
لبھا لیا ہے بہت دل کو رسم دنیا نے
ستمگروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئیں
غرورِ کَج کلہی جن کے دَم سے قائم تھا
وہ جرأتیں بھی گئیں، وہ جسارتیں بھی گئیں
نہ اب وہ شدتِ آوارگی، نہ وحشتِ دل
ہمارے نام کی کچھ اور شہرتیں بھی گئیں
دل تباہ تھا بے نام حسرتوں کا دیار
سو اب تو دل سے وہ بے نام حسرتیں بھی گئیں
ہوئے ہیں جب سے برہنہ ضرورتوں کے بدن
خیال و خواب کی پنہاں نزاکتیں بھی گئیں
بھلا دئیے غمِ دنیا نے عشق کے آداب
کسی کے ناز اٹھانے کی فرصتیں بھی گئیں
نہ چاند میں ہے وہ چہرہ نہ سرو میں ہے وہ جسم
گیا وہ شخص تو اس کی شباہتیں بھی گئیں
گیا وہ دورِ غمِ انتظار یار سحرؔ
اور اپنی ذات پہ دانستہ زحمتیں بھی گئیں

سحر انصاری 

No comments:

Post a Comment