Friday 18 December 2015

شب غم فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا

شب غمِ فرقت ہمیں کیا کیا مزے دکھلائے تھا
دم رکے تھا سینے میں کمبخت جی گھبرائے تھا
یا تو دم دیتا تھا وہ، یا نامہ بر بہکائے تھا
تھے غلط پیغام سارے، کون یاں تک آئے تھا
بل بے عیاری عدو کے آگے وہ پیماں شِکن
وعدۂ وصل آج پھر کرتا تھا اور شرمائے تھا
سن کے میری مرگ بولے 'مر گیا، اچھا ہوا
'کیا برا لگتا تھا جس دم سامنے آ جائے تھا
یارو! دشمن راہ میں کل دیکھنا کیونکر ملے
وہ ادھر کو جائے تھا اور یہ ادھر کو آئے تھا
بات شب کو اس سے منع بے قرار ی سے بڑھی
ہم تو سمجھے اور کچھ وہ اور کچھ سمجھائے تھا
کوئی دن تو اس پہ کیا تصویر کا عالم رہا
ہر کوئی حیرت کا پتلا دیکھ کر بن جائے تھا
کُوئے صحرا لے چلے اس کُو سے میری نعش ہائے
تھا یہی ڈر ان دنوں تلوا مِرا کھجلائے تھا
نازِ شوخی دیکھنا وقتِ تظلم دم بدم
مجھ سے وہ عذرِ جفا کرتا تھا اور جھنجلائے تھا
ہو گئی دو روز کی الفت میں کیا حالت ابھی
مومنؔ وحشی کو دیکھا اس طرف سے جائے تھا

مومن خان مومن

No comments:

Post a Comment