دل بستگی سی ہے کسی زلفِ دوتا کے ساتھ
پالا پڑا ہے ہم کو خدا کس بلا کے ساتھ
کب تک نبھائیے بتِ نا آشنا کے ساتھ
کیجیے وفا کہاں تلک اس بے وفا کے ساتھ
یاد ہوائے یار نے کیا کیا نہ گُل کھلائے
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
ہے کس کا انتظار کہ خوابِ عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آوازِ پا کے ساتھ
یارب! وصالِ یار میں کیوں کر ہو زندگی
نکلی ہی جان جاتی ہے ہر ہر ادا کے ساتھ
اللہ رے سوزِ آتش غم، بعدِ مرگ بھی
اٹھتے ہیں میری خاک سے شعلے ہوا کے ساتھ
سو زندگی نثار کروں ایسی موت پر
یوں روئے زار زار تُو اہلِ عزا کے ساتھ
ہر دم عرق عرق نگہِ بے حجاب ہے
کس نے نگاہِ گرم سے دیکھا حیا کے ساتھ
دستِ جنوں نے میرا گریباں سمجھ لیا
الجھا ہے ان سے شوخ کے بند قبا کے ساتھ
آتے ہی تیرے چل دیے سب ورنہ یاس کا
کیسا ہجوم تھا دلِ حسرت فزا کے ساتھ
مومنؔ وہی غزل پڑھو شب جس سے بزم میں
آتی تھی لب پہ جاں زہ و حبّدا کے ساتھ
مومن خان مومن
No comments:
Post a Comment