Friday 18 December 2015

ہم جان فدا کرتے گر وعدہ وفا ہوتا

ہم جان فدا کرتے، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا وہ آتے تو کیا ہوتا
اس حسن پہ خلوت میں جو حال کیا کم تھا
کیا جانیے کیا کرتا گر تُو مِری جا ہوتا
ایک ایک ادا سو سو دیتی ہے جواب اس کے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا
اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا
جنت کی ہوس واعظ! بیجا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا
اس تلخئ حسرت پر، کیا چاشنئ الفت
کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا
تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر
لب تک غمِ غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا
ہے صلح عدو بے خط تھی جنگ غلط فہمی
جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا
ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر
تُو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا
ہے بے خودئ دائم، کیا شکوہ تغافل کا
جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مِرا ہوتا
اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل
گر چارۂ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا
اچھی مِری بدنامی تھی یا تِری رسوائی
گر چھوڑ نہ دیتا میں، پامالِ جفا ہوتا
دیوانے کے ہاتھ آیا کب بندِ قبا اس کا
ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا
ہم بندگئ بت سے نہ ہوتے نہ کبھی کافر
ہر جائے گر اے مومنؔ موجود خدا ہوتا

مومن خان مومن

No comments:

Post a Comment