Sunday 20 December 2015

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
اس نے دیکھا مجھے، اس نے چاہا مجھے، اس نے ٹھکرا دیا، وقت کی بات ہے
کوئی مشکل پڑی، کوئی کام آ گیا، ذہن میں اس کے جو میرا نام آ گیا
بعد مدت کے وہ دوستوں کی طرح ہم سے ہنس کر ملا وقت کی بات ہے
زندگی ہم سے انجان تو ہو گئی، ایک رشتے کی پہچان تو ہو گئی
کوئی چاہت نہ تھی بس مروت تھی وہ، خود کو سمجھا لیا وقت کی بات ہے
اپنا رنگِ محبت ہے سب سے جدا، کوئی پوچھے تو راشدؔ کہوں اور کیا
جس کو پایا نہیں اس کو کھو کر بھی میں کیوں اسی کا رہا وقت کی بات ہے

ممتاز راشد

No comments:

Post a Comment