Tuesday 22 December 2015

نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے

نہیں اب کوئی خواب ایسا تِری صورت جو دکھلائے
بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پہ ہم تنہا چلے آئے
ابھی تک یاد آتے ہیں کچھ ایسے اجنبی چہرے
جنہیں دیکھے کوئی تو دیکھ کر تکتا ہی رہ جائے
یہ سچ ہے ایک زہرِ غم ہی آیا اپنے حصے میں
مگر یہ زہر پی کر بھی نہ ہم جینے سے باز آئے
اسی کے واسطے مت پوچھ کیا قیمت ادا کی ہے
مگر ہے کون جو ٹوٹے ہوئے اس دل کو اپنائے
ادھورے ہی سہی یہ نقش پھر بھی چھوڑے جاتے ہیں
کہ اس تصویر میں شاید کوئی اپنا نشاں پائے

خلیل الرحمان اعظمی

No comments:

Post a Comment