Tuesday 22 December 2015

تجھ سے بچھڑ کے دل کی صدا کو بکو گئی

تجھ سے بچھڑ کے دل کی صدا کو بکو گئی
لے، آج دردِ عشق کی بھی آبرو گئی
وہ رت جگے نہ رہے نہ وہ نیندوں کے قافلے
وہ شامِ مئے کدہ، وہ شبِ مشک بُو گئی
دنیا عجیب جگہ ہے کہیں جی بہل نہ جائے
تجھ سے بھی دور آج تِری آرزو گئی
اے کاش، میں نہ سازِ حقیقت کو چھیڑتا
وہ دل نواز اک خلش جستجو گئی
کتنی عجیب شے تھی مگر خواہشِ وصال
جو تیری ہو کے بھی نہ تِرے روبرو گئی
روٹھی تو خوب روٹھی رہی ہم سے فصلِ گل
آئی تو پھر نچوڑ کے دل کا لہو گئی
سینہ لہو لہان تھا ہر ہر کلی کا آج
بادِ صبا چمن سے بہت سرخرو گئی

خلیل الرحمان اعظمی

No comments:

Post a Comment