Tuesday, 1 December 2015

دوستوں سے پیار دشمن سے حذر کرتے رہے

دوستوں سے پیار دشمن سے حذر کرتے رہے
حسبِ توفیق امتیازِ خیر و شر کرتے رہے
دل کی دھڑکن بند ہو جانے پہ یہ عقدہ کھلا
دل کی ہر خواہش پہ ہم صرفِ نظر کرتے رہے
تیری محفل میں اڑا لائی ہوائے شوقِ دید
لاکھ ہم عذرِ شکستِ بال و پر کرتے رہے
طبعِ نازک پر گراں گزرے کہیں ایسا نہ ہو
قصۂ غم مختصر سے مختصر کرتے رہے
جو ارادہ کر کے نکلے ان کو منزل مل گئی 
ہم فقط گھر بیٹھ کر عزمِ سفر کرتے رہے 
فاصلے ہی فاصلے تھے، قربتیں ہی قربتیں
زیست اس نیرنگ میں بھی ہم بسر کرتے رہے
ان کی پلکوں پر نمی ابھری تو ہم بے اختیار
اپنی آہِ پُر اثر کو بے اثر کرتے رہے
اللہ، اللہ، آپ کی بندہ نوازی، عمر بھر 
ہم خطا کرتے رہے تم درگزر کرتے رہے
آشیاں جلتا رہا، چنتے رہے تنکے ایازؔ
زندگی بھر خاطرِ برق و شرر کرتے رہے

ایاز صدیقی​

No comments:

Post a Comment