Thursday, 17 December 2015

غم منزل نہ رہا ہو جیسے

غمِ منزل نہ رہا ہو جیسے
قافلہ ٹھہر گیا ہو جیسے
اس طرح بھولتے جاتے ہیں تجھے
سلسلہ ٹوٹ گیا ہو جیسے
دل سے آواز تو آتی ہے، مگر
کوئی درماندہ صدا ہو جیسے
بہکا بہکا سا ہے اندازِ خیال 
یاد کچھ بھی نہ رہا ہو جیسے
اب تو منزل ہی نہیں ہے کوئی
گھر کہیں چھوٹ گیا ہو جیسے
دل کے سنبھلے ہوئے انداز میں بھی
بہکی بہکی سی ادا ہو جیسے
صبح ہوتے ہیں سنبھل جاتے ہیں
رات کو دل نہ دُکھا ہو جیسے

فرید جاوید

No comments:

Post a Comment