غبار دل پہ بہت آ گیا ہے، دھو لیں آج
کھلی فضا میں کہیں دور جا کے رو لیں آج
دیارِ غیر میں اب دور تک ہے تنہائی
یہ اجنبی در و دیوار کچھ تو بولیں آج لیں آج
تمام عمر کی بیداریاں بھی سہہ لیں گے
طرب کا رنگ محبت کی لو نہیں دیتا
طرب کے رنگ میں کچھ درد بھی سمو لیں آج
کسے خبر ہے کہ کل زندگی کہاں لے جائے
نگاہِ یار! تِرے ساتھ ہی نہ ہو لیں آج
فرید جاوید
No comments:
Post a Comment