Thursday, 17 December 2015

جلتا ہوں ہجر شاہد و ياد شراب ميں

جلتا ہوں ہجر شاہد و ياد شراب ميں
شوق ثواب نے مجھے ڈال عذاب ميں 
کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں
رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام
آباد ايک گھر ہے جہاں خراب ميں
بدنام ميرے گريۂ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کيا رہا نگہ بے حجاب ميں
ناکاميوں سے کامک رہا عمر بھر ہميں
پیری ميں ياس ہے جو ہوس تھی شباب ميں
دونوں کا ايک حال ہے يہ مدعا ہو کاش 
وہی خط اس نے بھيج ديا کيوں جواب ميں
تقدير بھی بری، مِری تدبير بھی بری
بگڑے وہ پرسش سبب اجتناب ميں
کيا جلوے ياد آئے کہ اپنی خبر نہيں 
بے بادہ مست ہوں ميں شب ماہتاب میں
پيہم سجود پائے صنم پر دمِ وداع 
مومنؔ خدا کو بھول گئے اضطراب ميں​

مومن خان مومن

No comments:

Post a Comment