Monday 21 December 2015

دیے کی لو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی

دِیے کی لَو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی
کہ دن کی قدر کا باعث ہے ہر گھڑی شب کی
جو دلخراش ہیں کچھ لمحے دن کے لمحوں میں
تو دلفروز بھی ہیں ساعتیں کئی شب کی
کہاں کے خواب میرے اور کہاں کی تعبیریں
مجھے تو سونے نہ دے اب سحر گری شب کی
جو وہ نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے پھر حامدؔ
عبث ہیں چاند کے بِن رونقیں سبھی شب کی

ابرار حامد

No comments:

Post a Comment