جو سفر اختیار کرتے ہیں
وہ ہی دریا کو پار کرتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ خود مسافر کا
راستے انتظار کرتے ہیں
ان سے بچھڑے تو پھر ہُوا محسوس
ہم تو اپنوں سے کھا گئے دھوکا
آپ کو ہوشیار کرتے ہیں
جھوٹے وعدے کِیا نہ کر ہم سے
ہم تیرا اعتبار کرتے ہیں
ہم تو اس دل نوازؔ دشمن کو
دوستوں میں شمار کرتے ہیں
نواز دیوبندی
Beautiful, thank you for sharing
ReplyDelete