Sunday 20 December 2015

جو سفر اختیار کرتے ہیں

جو سفر اختیار کرتے ہیں
وہ ہی دریا کو پار کرتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ خود مسافر کا
راستے انتظار کرتے ہیں
ان سے بچھڑے تو پھر ہُوا محسوس
وہ ہمیں کتنا پیار کرتے ہیں
ہم تو اپنوں سے کھا گئے دھوکا
آپ کو ہوشیار کرتے ہیں
جھوٹے وعدے کِیا نہ کر ہم سے
ہم تیرا اعتبار کرتے ہیں
ہم تو اس دل نوازؔ دشمن کو
دوستوں میں شمار کرتے ہیں

نواز دیوبندی

1 comment: